Saturday 27 August 2022

سالہ یتیم لڑکی اور سوتیلی ماں 16

جب نمرہ پید اہوئی موت بھی پھولوں کی گاہک ہوئی اور اس کی ماں کو اپنے گلدستے میں سجا کر لے گئی ۔ نمرہ کی پرورش خالہ نے کی کیونکہ بیوی کے مرتے ہی اس کے باپ کو دوسری شادی کا شوق چڑ آیا ۔ بیٹی کو سالی کے حوالے کر کے خود دوسری شادی کر لی ۔ وہ اسے تھی واپس گھر لایا جب نمرہ دوسال کی ہو چکی تھی ۔ دوسری شادی پر کس کو اعتراض تھا کہ گھر بسانا تو ہر کسی کاحق ہوتا ہے

مگر یہ بد نصیب شخص شادی کے کچھ سال بعد چل بسا اور نمرہ معصوم سوتیلی ماں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ۔ جب سولہ سال کی تھی ۔ اس عورت نے نمرہ کی شادی اپنے بھتیجے سے کر دی ۔ اور خود تیسری شادی کر کے چلتی بنی ۔ شادی کے بعد بے چاری نمرہ کا گھر نہیں بدلا … وہیبان کی دو تین چار پائیاں اور چند بر تن .. ایک سلائی مشین بھی سوتیلی ماں اس کے لئے چھوڑ گئی تھی ۔ جو بعد میں اس کی زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کا وسیلہ بنی ۔شوہر کھٹو تھا ۔ نمرہ نے سلائی کا کام سنبھال لیا اور پائی پائی جوڑ کر گزارہ کرنے لگی ۔ اللہ نے اس خالی گھر میں ننھے منے بچوں کی ریل پیل کر دی اب وہ شوہر سے کہتی ۔ کچھ کام کر و ۔ اتنے سارے بچے ہو گئے ہیں ، میں ان کو پالوں یا دن بھر مشین پر لوگوں کے کپڑے سیوں ۔ اتنا کام مجھ سے نہیں ہو تا ۔ وہ بے حس آدمی یہی جواب دیتا ۔ مجھ سے محنت مزدوری کا باپ بھی ایک عذاب ہے ۔

نہ گھر سے جاتا ہے اور نہ کما کر لاتا ہے بس روٹی مانگتا ہے ، نشہ کر تا ہے اور سو جاتا ہے  بچے تو باپ کی صورت سے ڈرتے تھے ۔ جب وہ گھر آتا نمرہ کے بچے اکثر ہمارے گھر آجاتے ۔ جب تک کھانا کھا کر سونہ جاتا میں جانے کا نام نہ لیتے ۔ محنت مشقت نے نمرہ کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ کر دیا ۔ اسے کسی نے بیکار بیٹھےکا باپ بھی ایک عذاب ہے ۔نہ گھر سے جاتا ہے اور نہ کما کر لاتا ہے بس روٹی مانگتا ہے ، نشہ کر تا ہے اور سو جاتا بچے تو باپ کی صورت سے ڈرتے تھے ۔ جب وہ گھر آتا نمرہ کے بچے اکثر ہمارے گھر آجاتے ۔ جب تک کھانا کھا کر سونہ جاتا میں جانے کا نام نہ لیتے ۔ محنت مشقت نے نمرہ کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ کر دیا ۔ اسے کسی نے بیکار بیٹھےنہ دیکھا تھا ۔ تمام دن کام کرتی رہتی تھی ۔ پڑوس کی عور تیں میلے کپڑوں کے ڈھیر گٹھری میں باندھ کر رکھ دیا کر تیں ۔ وہ یہ گٹھریاں سر پر لاد کر گھر لے جاتی اور انہیں دھو کر کپڑے تہہ کر کے لادیتی ۔ سردی ہو یا گرمی وہ ڈھیروں میلے کپڑے شام سے رات تک دھوتی تھی ۔ ان کی کچھ نہ کچھ دھلائی اسے مل جاتی تھی ۔

ہماری اماں سمیت ساری پڑوسنیں اس کی راشن میں امداد بھی کرتی تھیں ۔ جس سے وہ اپنے پر بچوں کے ساتھ ساتھ شوہر کی توند کو بھی شکم سیر کراتی تھی ۔ اس روز بھی بے چاری نے سارا دن کام کیا تھا ۔ وہ تھک کر چور چور تھی ۔ رات ہوئی تو کپڑے دھونے کو پانی کا بڑا سانتیلا چو لہے پر رکھ دیا ۔ جس کے نیچے لکڑیوں کی آگ جل رہی تھی ۔ اس کی بڑی بیٹی اب سولہ سترہ برس کیہو چکی تھی ، وہ بھی دھلائی میں ماں کی مدد کرنے گئی ، تبھی کمرے سے بیٹے کی رونے کی آواز سنائی دی ، جس کی عمر سات آٹھ برس تھی ۔ نمرہ کپڑے دھوتے دھوتے اٹھی کہ دیکھے بچہ کیوں رویا ہے ۔ اندر گئی تو شوہر کو چار پائی پر لیٹے پایا ۔ وہ لڑ کے سے ٹانگیں دیوار ہا تھا اور بچے کو خیند آرہی تھی ۔

ٹانگیں دباتے دباتے اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو باپ نے اس کے مکار سید کر دیا ۔ ٹھیک سے دہا ۔ کیا تیرے ہاتھوں میں جان نہیں ہے حرام خور ۔ تبھی لڑ کا رونے لگاتو نمرہ شوہر سے الجھ پڑی ۔ ظالم سارا دن چار پائی توڑ تا ہے ۔ تیری ٹانگوں کو کیا ہوا ہے جو اتنی رات گئے بچے سے دیوارہا ہے۔اسے سونےدے ۔ یہ کہہ کر اس نے لڑکے کا بازو پکڑا اور اسے سلانے کو بستر کی طرف لے جانے لگی ۔ شوہر بھڑک اٹھا ۔ بیٹے کو تو کچھ نہ کہا ، مگر بیوی کو بالوں سے پکڑ لیا ۔ وہ چیخنے چلانے لگی ۔ ہم تو آۓ دن اس کا چیخنا چلانایو نہی سنتے تھے ۔ یہ معمول کی بات تھی ۔ اماں نے کہا ۔ کان مت لگاؤ اس طرف اور سوجاؤ … صبح نمرہ آۓ گی تو آپ ہی اپنیداستان سنادے گی ۔ ہم بہنیں لحاف میں دبک گئیں۔دل کو مگر اس کی درد بھری آواز سن کر تکلیف ضرور ہوئی تھی کوئی کیا کر سکتا تھا یہ میاں بیوی کا معاملہ تھا ۔ پڑوسی بھی مداخلت نہیں کرتے تھے ۔

غربت زدہ گھروں میں تو آۓ دن مار کٹائی رہتی ہی ہے ۔ صبح اس کی بیٹی فری روتی ہوئی آئی اور بتایا کہ اس کی ماں رات جل گئی تھی ۔ باپ اسےآئی اور بتایا کہ اس کی ماں رات جل گئی تھی ۔ باپ اسے اسپتال بھی نہیں لے کر گیا ۔ وہ کہیں چلا گیا تھا صبح سے ماں بے ہوش ہے ۔میری والدہ نمرہ کے گھر گئیں ۔ وہ واقعی بری طرح جلی ہوئی تھی ۔ سارے بدن پر آبلے پڑے تھے۔انہوں نے ہی اس کو اسپتال پہنچایا ۔ اس نے میرے والد اور والدہ کے سامنے یہی بیان دیا کہ رات جب کپڑے دھونے کو پانی کا گرم پتیلا باورچی خانے سے صحن میں نلکے کی طرف لے جانے کو اٹھایا تو پیر مڑ گیا ، گر گئی اور گرم گرم کھولتا پانی اوپر گر گیا ۔یہ ایک حادثہ تھا ۔ شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ گھر پر نہ تھا کہیں گیا ہوا تھا ۔ صبح تک نہ آیا تو پڑوسی اسپتال لے آۓ ۔ چار دن وہ اسپتال میں رہی اور پانچویں دن زندگی کی بازی ہار گئی ۔

اس کی موت کو ایک حادثہ قرار دے کر دفنا دیا گیا ۔ جس وقت اس کی تدفین کو محلے والے جمع ہوۓ تو شوہر بھی آ گیا ۔ وہ انجان سا بنا ہر ایک سے پوچھ رہا تھا ۔ کیا ہوا ہے ؟ میری بیوی کو کیا ہوا ہے ۔ بڑی بیٹی اورنو سالہ لڑکا چپ رہے جیسے ان کے لب کسی نے سی دیئے ہوں ۔ ایک لفظ بھی کسی کو کچھ نہ بتایا ۔ باقی بچوں کا بیان تھا کہ وہ سو گئے تھے جب ماں جلی تھی ۔ دراصل وہ اپنے باپ سے اس قدر خوف کھاتے تھے کہ اس کے خلاف بول ہی نہ سکتے تھے ۔نمرہ کی وفات کو پندرہ برس گزر گئے تھے اس دوران اس کے باپ نے اپنے رشتے داروں میں دونوں لڑکیاں بیاہ دیں ۔ بیٹے بھی رل پھر کر بڑے ہو گئے ۔ کوئی مز دوری کرنے لگا تو کسی نے ورکشاپ پر کام پکڑ لیا ۔ چوٹالڑ کا کچھ عرصے زندہ رہا ۔ ماں کے بغیر نہ ہی پایا وفات پا گیا ۔ ایک لڑ کا آوارہ لڑکوں کے چنگل میں پھنسا اور پھر ایک دن غائب ہو گیا ۔میرے والد صاحب نے بھی وہ پر انا مکان جو نمرہ کے پڑوس میں تھا

فروخت کر دیا اور نئے محلے میں نئے گھر ہم لوگ شفٹ ہو گئے ۔ ایک دن محلے داروں سے پتا معلوم کرتی نمرہ کی بڑی لڑکی فریدہ ہمارے گھر پہنچ گئی اور ہم سے ملی ۔ مدت بعد کی ملاقات سے ہم بھی خوش ہوئے ۔ میں نے شکوہ کیا ۔ فری تم تو بڑی بے مروت نکلیں ، کبھی پلٹ کر خبر نہ لی ۔ بولی ۔کیا کرتی آسیہ آپا تمہارے نئے گھر کا پتاہی نہ تھا ۔ کئی بار ملتا چاہا مگر پتا کوئی نہ بتاسکا ۔ اس بار جب ابا کے گھر گئی تو گلی میں آمنہ خالہ مل گئیں ، انہوں نے پتا بتادیا ۔ دیکھو آبی گئی نا !۔ پرانے دنوں کی باتیں ہونے لگیں ۔ گزری یاد میں دوہرائی جانے لگیں ۔ باتوں باتوں میں اماں نے جب اس کی ماں کاذکر کیا تو نمرہ کی بیٹی آبدیدہ ہو گئی ۔ بولی ۔ خالہ جی ، ان کی موت حادثے سے نہیں ہوئی تھی ۔

تو کیسے ہوئی ؟ اتنی مدت گزر گئی ہے اب تو بتا دو ۔ کہنے لگی ۔ مرنے سے پہلے اماں نے ہاتھ جوڑ کر منت کی تھی کہ فری کسی کو اصل بات نہ بتانا مگر دل پر بوجھ رہتا ہے ۔ آج بتاۓ دیتی ہوں کہ اماں کی موت کیسے ہوئی تھی ۔ دراصل اماں جان چکی تھیں کہ وہ تو مر جائیں گی پیچھے باپنو سالہ لڑکا چپ رہے جیسے ان کے لب کسی نے سی دیئے ہوں ۔ ایک لفظ بھی کسی کو کچھ نہ بتایا ۔ باقی بچوں کا بیان تھا کہ وہ سو گئے تھے جب ماں جلی تھی ۔ دراصل وہ اپنے باپ سے اس قدر خوف کھاتے تھے کہ اس کے خلاف بول ہی نہ سکتے تھے ۔بھی ترس نہ کھایا اور جلتی لکڑی سے مارنے لگے ۔ تبھی میں چیخنے چلانے لگی ۔ مجھے صحن کی جانب دوڑ تا دیکھا تو گھر سے باہر چلے گئے کہ کہیں پڑوسیوں کو پتانہ چل جاۓ ۔ میں دوبارہ دوڑ کر اماں کے پاس گئی ۔ وہ زمین پر پڑی تھیں ۔

ان کو اٹھایا اور ٹھنڈا پانی ان کے جلتے بدن پر انڈیل دیا ۔ جس سے بڑے بڑے آبلے بن گئے ۔ صبح آپ لوگ اماںکو اسپتال لے گئے ۔ آگے آپ کو پتا ہے جو ہوا ۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی ۔ ہمیں بہت دکھ ہوا کہ بے چاری نمرہ بھی کیسی قسمت لے کر پید اہوئی تھی ۔ سبھی نے اسے گزری کہانی جان کر بھلا دیا مگر اب بھی جب اس واقعہ کی یاد آتی ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ اب نہ نمرہ رہی اور نہ اماں رہیں ۔ ابا بھی وفات پاچکے ہیں ۔ میری شادیہو گئی تو میں امریکہ آبی ، لیکن جب بھی پاکستان میں اس قسم کے حادثے کا کہیں احوال سنتی یا پڑھتی ہوں نمرہ یاد آجاتی ہے کہ آج بھی ہمارے وطن میں عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے ، یقین نہیں آتا ۔

The post سالہ یتیم لڑکی اور سوتیلی ماں 16 appeared first on TRENDBUDDIES.COM.



source https://trendbuddies.com/%d8%b3%d8%a7%d9%84%db%81-%db%8c%d8%aa%db%8c%d9%85-%d9%84%da%91%da%a9%db%8c-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b3%d9%88%d8%aa%db%8c%d9%84%db%8c-%d9%85%d8%a7%da%ba-16/

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home