پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں . پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو میں بیماری کے حساب سے
وہ روزانہ آتی تھی میرے کلینک پہ سب سے آخری سیٹ پر بیٹھ جاتی تھی ، اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی ، اپنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی پہلے چیک کرانے کیلئے اپنی جگہ دے دیتی تھی ، وہ کسکستی ہوئی وہیں آخری سیٹ پر پہنچ جاتی
عورتیں اپنی بیماریاں بتاتی تو وہ غور سے سن رہی ہوتی اور ان سے سوال جواب بھی کرتی ، عمر کوئی پنتیں یا چالیس کے قریب تھی ! کپڑے قیمتی نہیں مگر صاف ستھرے ہوتے تھے ۔ میں ملک کا مشہور ڈاکٹر رحمان شاہ ہوں ، دن میں سرکاری ہسپتال میں ہو تا ہوں اور شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر رات گئے تک بیٹھتا ہوں ، میری پریکٹس خوب چلتی ہے ۔ لوگ کہتے ہیں اللہ نے میرے ہاتھ میں شفار کھی ہے ۔
میری فیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے ، میرا گھر میں انتظار کر نے والا کوئی نہیں ہے . اس لیے میر از یادہ وقت کلینک پر ہی گزر تا ہے ۔ بیوی دو سال پہلے فوت ہو چکی ہے ۔ جبکہ بیٹیوں کے فرائض میں ادا کر چکا ہوں ۔ دونوں اپنے گھروں میں آباد ہیں ، وہ لڑ کی بلاناغہ تقریبا ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کلینک پر بیٹھی اور پھر چلی جاتیں ۔ بغیر چیک کرائے اور دوالیے . آج میں نے ارادہ کیا کہ اسے پوچھوں گا کہ وہ کیا کرنے آتی ہے ؟ بی بی آپ آئیں میں نے اپنی مریضہ کو دوسری طرف بٹھا کر اسے اشارہ کیا ، وہ پریشان ہو کر میری طرف دیکھنے لگی ہی میں آپ کو ہی بلا رہا ہوں ۔ آئیں اب آپ کی باری ہے ۔
وہ اٹھی اور تقریباً گھسیٹتے ہوۓ قدموں سے میرے پاس آکر کھڑی ہو گئی . میں نے اسے کہا بیٹھے ۔ وہ نہ چاہتے ہوۓ بیٹھ گئی ۔ میں نے اس سے اس کا مسئلہ پوچھا ، اس نے گلے صاف کیا اور دھمے لہجے میں بولی ، ڈاکٹر جی آپ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں . میں غریب عورت آپ کی فیس ادا نہیں کر سکتی اور میں اپنا یہاں علاج کرانے نہیں آئی . میں پوچھا پھر آپ یہاں کیا کرنے آتی ہو ؟ اس نے جواب دیا ڈاکٹر صاحب میں پیراں اٹھ میں رہتی ہوں ۔ وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے ۔ ایک ہی حکیم تھا وہ بھی مر گیا پچھلے دنوں
بستی میں ہیضہ پھوٹ پڑا ، کہیں مائوں کی گود اجڑ گئی کیونکہ ہمارے علاقے میں کوئی ڈاکٹر نہیں . اس بیماری کی وجہ سے میری شانو بھی مر گئی اور پھر وہ رونے لگی مجھے لگا کہ وہ بستی کے لوگوں کے علاج کیلئے اسرار کرے گی ۔ ، مگر میرے پاس نہ تو وقت تھا اور نہ ہی جذبہ میں کیسے اپنا چلتا ہوا کلینک چھوڑ کہ اس کیساتھ اس کی بستی کے لوگوں کا علاج کرنے چلا جاتا ۔ اسی خدشے کے پیش نظر میں پہلے ہی صاف جواب دینا مناسب سمجھا دیکھو بی بی اس میں میرا کوئی قصور نہیں . اگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے یہ میری ۔ نہیں بلکہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے . اور میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ براۓ مہربانی میرا وقت ضائع نہ کریں ۔
میرے غرور اور تکبر میرے لہجے سے چھلک رہا تھا ۔ اس جہاں کے فانی ہونے کا اعتراف تمام مخلوقات میں سے صرف نوح انسان کو ہے ۔ مگر پھر بھی اس کی بھوک بے قابو ہے . چاہے وہ دولت کی ہو یا کسی اور چیز کی میرے مریض میرا انتظار کر رہے تھے ۔ میں جان چھٹرانے کی غرض سے فصیلے لہجے میں کہا بی بی جب کوئی پیاری نہیں اور کوئی کام نہیں تو یہاں کیا کرنے آتی ہو ؟ میر ا کتنا ٹائم تمہاری وجہ سے ضائع ہو گیا ۔ اس نے چند ثانیے میرے چہرے کو دیکھا اس کے چہرے پر حیرانی صاف پڑی جارہی تھی ۔
شاید اسے مجھ جیسے اعلی درجے کے ڈاکٹر سے ایسی گھٹیا ین کی امید نہ تھی ، وہ گویا بولی ڈاکٹر جی ! آپ کے پاس جو مریض آتے ہیں میں ان سے باتوں باتوں میں ان کی بیاری کے متعلق پوچھتی ہوں جو دوائی آپ ان کو تجویز کرتے ہیں ، اس کا نام بھی پوچھ لیتی ہوں اسی طرح روز ایک دو مریض سے میری بات ہو جاتی ہے ۔ گھر جا کے میں بیماری اور دوائی کا نام کاپی میں لکھ لیت ہوں ، پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں . پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو میں بیماری کے حساب سے آپ کی بتائی ہوئی دوائی انہیں لا کر دیتی ہوں ، میری شانو تو مر گئی مگر میں کسی اور کی شانو کو مرنے نہیں دوں گی ۔
The post پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں . پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو میں بیماری کے حساب سے appeared first on TRENDBUDDIES.COM.
source https://trendbuddies.com/%d9%be%d9%88%d8%b1%db%8c-%d9%be%d8%a7%d9%86%da%86-%d8%ac%d9%85%d8%a7%d8%b9%d8%aa%db%8c%da%ba-%d9%be%d8%a7%d8%b3-%db%81%d9%88%da%ba-%d9%be%da%be%d8%b1-%d8%a7%da%af%d8%b1-%d8%a8%d8%b3%d8%aa%db%8c/
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home